top of page
  • Writer's picturesajidbutt

A typical day in January 1980

سن اسی کے جنوری میں چلیئے۔

ہم نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ جماعت کا کمرہ، کالج کے لائبریری بلاک کے سامنے والا۔ نویں جماعت کے سیکشنز ایک قطار میں۔ سب سے پہلے، اے سیکشن۔ منظم اور انتہائی بورنگ! ٹیچر کے آنے پر دروازے بند، جماعت کے کمرے میں پن ڈراپ خامشی۔ ٹیچر کی غیر موجودگی میں بھی وہی حال۔ حاضری پوری۔ غرض ہوں سمجھئے کہ چلتے پھرتے زومبیز !!

پھر ہمارا رنگین کمرہ۔ نہم بی۔ اچھے دنوں میں بھی حاضری قریبا چالیس فی صد۔ صبح بارش ہو تو پانچ یا دس فی صد۔

صبح آنے والے لڑکے بھی پہلے پیریڈ کے بعد اکثر غائب۔ اکثریت کھیل کود کے شوقین۔

صبح کے نیازی صاحب کے پیریڈ کے بعد، سر نبی بخش سے بائیولوجی کی جماعت میں اسلامیات کے بارے میں پڑھ کر، طبیعت میں کچھ اضمحلال سا تھا۔

تیسرا پیریڈ کیمسٹری کے لئیے مختص تھا لیکن سر ظہور ملک تشریف نہیں لائے۔ طبیعت ناساز ہو گی۔ باہر سردیوں کی گلابی دھوپ بکھری پڑی تھی۔ کمرے میں موجود واحد بلب کی ڈیپریسنگ روشنی سے بچنے کے لئیے ہم چند دوست برآمدے میں دھوپ سینکنے کھڑے ہو گئے۔

عقیل حفیظ خواجہ کو بھوک لگ گئی اور وہ چابکدستی سے ٹک شاپ سے کچھ کھانے کو لے آیا۔ میں، انور، اکرام، ظفر، سعید اختر، توحید ، منصوراور نجم ہاتھ جیبوں میں ڈالے گپ شپ کرتے مونگ پھلیاں پھوڑ رہے تھے جو توحید کے کوٹ کی جیب سے برآمد ہو رہی تھیں۔

"یار اگر ساتھ میں ریوڑیاں ہوتیں تو خوب لطف رہتا", ظفر نے مونگ پھلی کی گلابی شفاف جھلی نما چھلکوں کو پھونک سے اڑاتے ہوئے ہنکارا بھرا۔

اس پر لطف خیال پر سب نے سر ہلایا۔

""کل میں لے آؤں گا", نجم کی آواز پر سب خوش ہو گئے۔

گفتگو حسب معمول، گزشتہ دن کے ٹی وی پروگرام کی طرف مڑ گئی۔

"نیا شروع ہونے والا ڈرامہ 'وارث' دیکھا؟" منصور نے دریافت کیا۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ میرے علاوہ، سبھی نے یہ ڈرامہ دیکھ رکھا تھا۔

"کب لگتا ہے یہ ڈرامہ؟" میں نے استفسار کیا۔

"دو قسطیں آ چکی ہیں۔ رات خبر نامے کے بعد لگتا ہے". منصور نے مطلع کیا۔

اب میرے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ میں خبرنامہ دیکھنے کے ساتھ ہی سو جایا کرتا تھا۔ اس لئیے، ٹی وی پر راست ساڑھے نو کے بعد کیا ہوتا تھا، میرے علم میں نہیں تھا۔

ساتھیوں کی پرجوش گفتگو کو سن کر، مجھے تحریک ہوئی کہ اسے دیکھنے کے لئیے، اس روٹین کو توڑنا پڑے گا۔

منصور نے مجھے اس وقت تک ہونے والے واقعات کے بارے میں آگاہ کیا۔ کیسے چوہدری حشمت نے اپنے پرانے انگریز افسر کے پاس ایک اعلی نسل کا کتا دیکھا تھا اور کیسے اتنے سالوں کے بعد، اسی جیسا کتا اسے پھر نظر آیا۔ جو چوہدری صاحب کی امید کے خلاف، کرسٹل نامی کتے کا مالک، انہیں بیچنے پر راضی نہیں تھا!

ڈرامے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث، پی ٹی وی کے بزرجمہر وں نے ڈرامے کا وقت آٹھ بجے کر دیا اور اس طرح اسے دیکھنے کے لئیے، مجھے اپنی روٹین تبدیل نہ کرنا پڑی۔

اس کے بعد کے دس گیارہ ہفتے تو خیر ہم سب تو کیا، پورا ملک ہی کرسٹل، چوہدری حشمت، دلاور، چوہدری انور اور پتر نیاز علی کی کہانی کی گرفت میں آ گیا! دھواں دار گپیں لگتیں۔ آگے کیا ہو گا، پر خوب رائے دی جاتی۔ مولاداد کی کھانسی کی نقل کون اچھی اتار سکتا تھا؟ چوہدری انور کے سٹائل میں کون تڑی لگانے کا اہل تھا۔

"شہزادے! خرچ ہو جائے گا!" کہاں اچھا استعمال ہو سکتا تھا۔

ڈرامے کے کردار اور ان کے کہے ہوئے فقرے ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے ۔ رات پونے آٹھ بجے سے ہی، شہروں کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو جاتیں۔ تمام ملک اس انتہائی دلچسپ کہانی کے تانے بانے میں الجھ جاتا اور ایک انتہائی منجھے ہوئے قلمکار کے فن کی بدولت، کہانی کا اختتام ایسے موڑ پر ہوتا کہ اگلے چھ روز، اسی انتظار میں گزرتے کہ آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے! کہانی کے بنیادی کردار تو مشہور ہوئے ہی، کئی چھوٹے موٹے کردار بھی ایسی انمٹ یادیں چھوڑ گئے کہ اب بھی نہیں بھولتے۔ اسی ڈرامے سے مشہور ہونے والا پانی کا بلبلہ، تمام عمر یہی نظم گاتا رہا اور اسے اور کچھ کرنا ہی نہ پڑا!

یہ وہ دور تھا کہ جب ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا اور سب یہی یہی چینل دیکھا کرتے تھے۔ زندگی سادہ تھی۔ ایک مونگ پھلی کے لفافے اور ریوڑیوں کے وعدے پر، تمام دوست راضی ہو جاتے۔ جنوری کی دھوپ میں ، کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں کرنا بہترین "ہینگ آوٹ" تھا. اور ایک دھندلی تصویر والا پی ٹی وی ڈرامہ، دنیا کی بہترین تفریح۔

آج کی نسل سوئس چاکلیٹس کے ڈبوں، سکینگ ہالیڈیز اور نیٹفلکس/ایمازون پرائم سے بھی بور ہو جاتی ہے۔ یار لوگوں کا ڈالرز اور پاؤنڈز میں بھی گزارا نہیں ہوتا۔ اس وقت کے چند ہزار روپوں میں بھی سوہنا گزارا ہو جاتا تھا۔

اپنے آخری پنڈی کے سفر میں، سر نیازی سے ملاقات ہوئی۔

تمام لوگوں کی طرح، مہنگائی سے کچھ پریشان تھے۔ میانوالی کے تعلق کی وجہ سے، عمران خان کے فین نکلے۔ فرمانے لگے،

"بچپن میں چراغ کی روشنی میں پڑھتے پڑھتے سو جایا کرتا تھا۔ صبح کی نماز کے لئیے اٹھتا اور وضو کرتا تو چھنگلی سے ناک صاف کرتا تو جہاں تک انگلی ناک میں جاتی، چراغ کے دھویں سے سیاہ ہو جاتی۔ ان دنوں سے آج کی جگمگ جگمگ روشنیوں میں آگئے۔ مالک کا بڑا کرم ہے۔ نا شکری نہیں کرنی چاہئیے۔ اس رب العزت نے ہمیں اپنی اوقات سے کہیں زیادہ نوازا ہے۔"

ہمیشہ کی طرح، نیازی صاحب سے اتفاق کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین


23 views2 comments

Recent Posts

See All
Post: Blog2_Post
bottom of page