sajidbutt
Start of my High School
سن پچھتر میں، ہمارا سکول سی بی سرسید سکول کہلایا کرتا تھا۔ سی بی، یعنی کینٹونمنٹ بورڈ۔
پھر ایک روز صبح سکول پہنچے تو علم ہوتا کہ ہم سب سی بی کی بجائے، ایف جی سرسید سکول میں پڑھتے ہیں۔ سکول کے سامنے لکھا نام بھی تبدیل ہو گیا۔ لیکن اس نام کی تبدیلی سے اور کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ بقول شاعر،
وہاں کا کھمبا ویسا ہی لمبا
وہاں کی بلی، ویسی ہی کالی !
مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ صبح کی اسمبلی میں ہیڈمسٹرس صاحبہ نے ہمیں اس انتہائی اہم تبدیلی کے مضمرات سے آگاہ ضرور کیا۔ لیکن یہ معرفت کی باتیں ہمارے نو سالہ دماغ کے اوپر سے ہی گزر گئیں۔
آنے والے امتحانوں کے فکر میں پیچاں و غلطاں، ہم چپ چاپ اپنی پڑھائی کرتے رہے۔ بھئی آخر پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ بقول امی کے اور جگہوں پر تو اس عمر کے بچے وظیفے کا امتحان دیا کرتے ہیں !
جہاں اس کلیدی نوعیت کے امتحان کی ٹینشن تھی، وہیں یہ خوشی بھی تھی کہ اگر امتحان میں کامیاب ہو گئے، تو ہم دیوار کے اس پار والے ہائی سکول میں پڑھیں گے!
اب کیا بتاؤں کہ اس خیال کے پیچھے کیسے کیسے خواب چھپے تھے.
نیکروں کی جگہ خاکی پتلون اور سفید قمیض کا سمارٹ یونیفارم۔ گہرے نیلے رنگ کی سکول کیپ، علم و عمل والا گول سکول بیج، ریلنگ پر بیٹھے بڑے بھائی جانوں کی طرح کھڑے ہو کر خوش گپیاں کرنا، بہت ہی بڑے کھیل کے میدان میں اصلی کرکٹ بال اور فٹ بال سے کھیلنا۔ اور تو اور، سنا تھا کہ وہاں باسکٹ بال اور بیڈمنٹن کے کورٹس بھی ہیں۔ لیڈی ٹیچرز کی جگہ اب ہوں گے سر، جو سنا تھا کہ کلاس میں انگریزی ہی بولتے ہیں۔
غرض اس طرح کے بیشمار خواب سجائے اور کچھ کچھ خوف دلوں میں دبائے، مارچ سن چھہتر کی ایک سہانی صبح، میں ایف جی سرسید گرلز سیکنڈری سکول سے ایف جی سرسید بوائز ہائی سکول میں داخل ہو گیا۔
پہلے دن، سکول جاتے ہوئے، اپنی نئی یونیفارم میں، نئے سکول بیگ اور نئی کتابوں کاپیوں کے ساتھ، دھڑکتے دل کے ساتھ میں اسی وسیع و عریض اسمبلی گراؤنڈ میں کھڑا تھا، جسے دیوار کے اس پار سے دیکھا کرتے تھے۔
سر ظہور کی بلند آواز میں کاشننگ اور پراپر سکول بینڈ کے ڈرمز کی آواز میں یوں محسوس ہوا جیسے کسی فوجی اکیڈمی میں پہنچ گئے ہوں۔ میرا سیکشن بی تھا اور اس میں گرلز سکول سے ایک آدھ ہی ساتھی میرے نئے سیکشن میں میرا ساتھی بنا تھا۔
اسمبلی کے بعد ہم لوگ اپنے نئے کلاس روم میں پہنچے۔ یہ کمرہ میرے لئیے تو نیا تھا لیکن تھا سخت قدیم۔ اس کا منہ سکول کے پچھلی طرف بہتے ہوئے نالے کی طرف تھا جہاں بیڈمنٹن اور باسکٹ بال کورٹس تھے ( بعد میں یہاں کلاس روم بلاکس بن گئے).
اسی طرف سکول ٹک شاپ بھی تھی جس کے برابر ہی نئی سکول بک اینڈ سٹیشنری شاپ تازہ تازہ کھلی تھی۔
ہمارے کمرہ جماعت میں ایک پرانا سا پنکھا چھت سے لٹک رہا تھا جو بٹن دبانے کے بعد آہستہ آہستہ چلتا بھی تھا۔ یہ اور بات کے چلتے چلتے، کسی بوڑھے مریض کی طرح اس میں سے پراسرار سی آوازیں بھی نکلتی تھیں، جیسے اپنے آخری دموں پر ہو۔
ہمارے کلاس ٹیچر، سر افسر علی خان تھے جو ہمیں ریاضی پڑھانے پر معمور ہوئے۔ پرشفیق انسان تھے۔ ہمیں انہوں نے ریاضی کے ساتھ ساتھ کمرہ جماعت کو صاف ستھرا رکھنے کی خصوصی ہدایات دیں اور وہ یہ ہدایات باقاعدگی سے دہراتے رہتے۔ ریاضی کے بارے میں ان کا کہنا تھا اگر ہم نے اس اہم مضمون کو روزانہ کا ایک گھنٹہ دیا، تو ہم اس پر سوار ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم نے یہ نہ کیا تو یہ ہم پر سوار ہو جائے گا!
ہمارے سائینس کے ٹیچر سر شاہد حسن مرزا تھے۔ نوجوان اور چشمہ لگائے ہوئے، سوٹڈ بوٹڈ۔ سر دیکھنے میں ایک نوجوان بیوروکریٹ لگتے تھے۔ سمارٹ اور ذہین۔ سر کی شخصیت متاثر کن تھی۔ چھٹی جماعت میں سائنس کا مضمون اب کوئی اتنا تفصیل میں تو تھا نہیں، لیکن ہم دس سالہ بچوں کے لئیے، جو پرائمری سے ہائی سکول میں داخل ہوئے تھے، یہ خاصا پیچیدہ لگا۔ خوشقسمتی سے، سر شاہد میں، مضمون کی جزئیات کو آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرنے کی خوبی ودیعت ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں اتنی آسان زبان میں ایٹم کے بارے میں سمجھایا کہ کم از کم مجھے، اس نئے کانسیپٹ کو سمجھنے میں ذرا بھی مشکل نہ ہوئی۔
سر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اگر ہمیں سبق کے بارے میں کوئی بھی مشکل پیش آئے تو ہمیں بلا جھجک سوال پوچھنا چاہئیے۔ یہ کہنے کے ساتھ ہی، انہوں نے پوچھا، کہ آپ کو آج کے سبق کے بارے میں کوئی سوال پوچھنا ہے۔
میں نے ہاتھ کھڑا کیا۔
سر نے مجھے غور سے دیکھا۔ اور کہا، "جی پوچھئیے کیا پوچھنا ہے؟"
"سر، آپ نے ابھی ایٹم کی ساخت کے بارے میں بتایا۔ الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران تو مجھے سمجھ آگئے۔ لیکن آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایٹم اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ طاقتور سے طاقتور خوردبین سے بھی اے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تو سر، اگر ایٹم اتنا ہی چھوٹا ہے کہ ہم اسے دیکھ ہی نہیں سکتے، تو پھر سائنسدانوں کو یہ علم کیسے ہوا کہ اس کی ساخت کیسی ہے؟"
سر کے چہرے پر میرا سوال سن کر ایک خوشگوار حیرت کے تاثرات ابھرے۔ انہیں شاید یقین نہیں تھا کہ ایک دس سال کا بچہ یہ سوال پوچھ سکتا ہے۔ سر نے سوال کیا جواب دینے سے پہلے، میری دل کھول کر تعریف کی۔ میری بھر پور حوصلہ افزائی کی۔ اور کرتے ہی چلے گئے۔ سوال کا جواب تو مجھے کچھ خاص سمجھ نہ آیا، لیکن سر کی حوصلہ افزائی نے میرا سیروں خون بڑھا دیا۔ سر کے برتاؤ نے مجھے علم حاصل کرنے کی تحریک دی، سوال پوچھنے کا حوصلہ دیا اور یہ احساس اجاگر کیا کہ اب میرا بچے سے نوجوانی کی طرف کا سفر شروع ہو چکا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک اچھا استاد، ایک قوم کے معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سر شاہد حسن مرزا جیسے شفیق اور محنتی استاد ہی ایک نئی نسل کو آنے والی دنیا کے لئیے تیار کرتے ہیں۔ ان جیسے اساتذہ کا قرض، ان سے سیکھنے والی نسل شاید کبھی نہ اتار پائے۔ ہماری پرخلوص دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔ انشاللہ
